قرآن محکم کی شان عظیم
دوسری
قسط
از: رشید احمد فریدی ، مدرسہ مفتاح
العلوم، تراج ضلع سورت
قرآن کا رسم الخط اور قرأتِ متواترہ کا بیان
ہرزبان کا ایک طرزِ ادا ہوتا ہے اور
ایک طریقہٴ خط۔ دونوں کے کچھ اصول و ضوابط ہوتے ہیں
جن کے مطابق پڑھا اور لکھا جاتا ہے۔ عربی زبان دنیا کی وسیع
تر زبانوں میں سب سے اعلیٰ واشرف اور وسیع ترین ہے
علمائے عربیت نے اس کے اصول و قوانین بیان کیے ہیں وقد مہّد النحاة اصولاً وقواعد․(۱) کلام الٰہی کا آخری نسخہ
قرآن پاک اسی عربی زبان میں نازل ہوا ہے اور قواعد عربیت
کا سرچشمہ اورمخزن ہے اِنَّا انزلناہ قرءٰ ناً عربیًا(۲)۔ اب یہاں دو امر قابل لحاظ ہیں:
(۱) ایک یہ کہ قرآن مجید عربی
قواعد و اصول کے موافق ہونے کے باوجود ایک خاص فوقیت کا حامل ہے وہ یہ
کہ عربی زبان تو اپنے اصول و قواعد میں کلام اللہ کی خوشہ چیں
ہے مگر قرآن خود قائد ہے اس کا تابع نہیں ہے۔ اسی لیے بعض
مقام پر عام نحوی قواعد کی مطابقت نظر نہیں آتی ہے۔
(۲)دوسرا امر یہ ہے کہ قرآن مجید
کی کیفیت اداء جس طرح جداگانہ اور ممتاز ہے اسی طرح اس کا
رسم الخط بھی انوکھا اور امتیازی شان لیے ہوئے ہے یعنی
قرآن پاک کا اپنا ایک مخصوص رسم الخط ہے اور وہ اسی کا پابند ہے خواہ
عام رسم الخط کے اصول کے موافق نہ ہو وقد خالفہا فی بعض الحروف خط الامام
المصحف(۳) اس کی نظیر ایسی
سمجھئے جیسے فن عروض کا خط جس میں اشعار لکھے جاتے ہیں کہ وہ
عام اصول خط کے خلاف ہوتا ہے اور شاعر اپنے کلام کو اسی کے مطابق وزن کے
سانچہ میں ڈھال لیتا ہے۔ اسی وجہ سے کہا گیا ہے ۔
خطان لایقاسان خط العروض وخط القرآن(۴) یعنی دو خط قیاسی
نہیں ہیں ایک فن عروض کا خط، دوسرے قرآن کریم کا خط۔
علامہ طاش کبری زادہ صاحب مفتاح السعادة نقل کرتے ہیں: قال عبداللّٰہ بن درستویہ فی
کتابہ فی الخط والہجاء ”خطانِ لایقاسان خط المصحف لانہ سنة وحظ العروض
لانہ یثبت فیہ ماثبتہ اللفظ ویسقط عنہ ما اسقطہ“(۵)۔
قرأة متواترہ کی اصلیت
حدیث اُنزل القرآن علی سبعة
احرف یعنی قرآن سات مختلف طُرقِ ادا پر نازل کیاگیا ہے۔
یہ حدیث ۲۱/صحابہ
کرام سے مختلف الفاظ میں مروی ہے ابوعبید قاسم بن سلاّم نے اسے
متواتر بتایا ہے(۶) خلاصہ
اس کا یہ ہے کہ شروع میں قرآن کو ایک طرز یعنی قبیلہٴ
قریش کے طریق ادا پر پڑھنے کا حکم دیاگیا تھا مگر عرب کے
دوسرے قبائل جن کا طریق ادا قریش سے جداگانہ تھا ان کے لیے قریش
کے طرز و لہجہ میں پڑھنا طبعی وفطری ذوق کے اعتبار سے گراں تھا
جیساکہ ہر علاقہ کی زبان میں بُعدِ مسافت کی وجہ سے لب
ولہجہ میں فرق ہوا کرتا ہے اس لیے نبی کریم صلى الله عليه
وسلم نے اپنی پوری امت کے لیے سہولت و آسانی کی دعا
فرمائی اور دوسرے طریق میں پڑھنے کی اجازت طلب فرمائی
بار بار کی التجاء پر سات (بلکہ اس سے زائد) طریقوں سے پڑھنے کی
اجازت مرحمت ہوئی عن ابی
بن کعب رضى الله تعالى عنه․․․ اِن اللّٰہ یامرک اَن تقرأ امتک
القرآن علی سبعة احرف فایما حرف قرء وا علیہ فقد اصابوا(۷)۔
رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے اپنے
اصحاب رضوان الله تعالى عليهم اجمعين کو انہی مختلف انداز سے قرآن کریم
کی تعلیم دی پھر جس صحابی نے جس طرح تعلیم پائی
تھی اس کو سینہ سے لگایا، ذہن میں بسایا اور دوسروں
تک پہونچایا یہاں تک کہ یہ مختلف قرأتیں صحابہ کرام میں
عملاً رائج اور معروف ہوچکی تھیں۔ اور رسول اکرم صلى الله عليه
وسلم اپنی حیات مبارکہ میں قرآن مجید کو جن جن چیزوں
میں لکھواکر ضبط فرمایا کرتے تھے حضرت صدیق اکبر رضى الله تعالى
عنه نے جب اپنی خلافت میں قرآن کریم کو منتشر چیزوں سے
اکٹھا کرکے اوراق میں جمع کروایا تو جمع کردہ یہ قرآن دیگر
خصوصیات کے ساتھ مذکورہ بالا احرف سبعہ کا بھی حامل تھا ولا یعزبَنّ عن بالک ان ہذا الجمع کان
شاملاً لاحرف السبعة التی نزل فیہا القرآن(۸) اعلم ان
جماہیرالعلماء من السلف والخلف وائمة المسلمین ذہبوا الی ان
المصاحف العثمانیة مشتملة علی ما یحتملہ رسمہا من الاحرف السبعة
التی انزل بہا القرآن جامعة للعرضة الاخیرة التی عرضہا النبی
صلی اللّٰہ علیہ وسلم علی جبریل متضمنة لہا لم یترک
حرفا منہا لان الصحابة اجمعوا علی نقلہا من المصحف الذی کتبہ ابوبکر
وعمر واجمعوا علی ترک ماسوی شیء من القرآن کذا قالہ الجزری
فی النشر ولذلک لایجوز مخالفة المصاحف العثمانیة فی
الکتابة(۹)۔ اور اس مجموعہ بین الدفتین
کا نام خلیفہٴ اول حضرت صدیق اکبر رضى الله تعالى عنه نے مشورہ
سے ”مصحف“ تجویز فرمایا۔(۱۰)
رسم عثمانی کی اہمیت
وفرضیت
پھر قرّاء صحابہ میں سے جو جس علاقہ
میں رونق افروز ہوئے وہاں کے لوگوں کو انھوں نے اپنے طریق عمل، طرزِ
تعلیم اور کیفیت ِ اداء سے روشناس کرایا چنانچہ کوفہ میں
حضرت عبداللہ بن مسعود رضى الله تعالى عنه کی قرأت، ملک شام میں حضرت
اُبی بن کعب رضى الله تعالى عنه کی قرأت اوریمن وغیرہ میں
حضرت ابوموسیٰ اشعری رضى الله تعالى عنه کی قرأت مشہور
ومقبول ہوئی(۱۱)۔ انما کان کل صحابی فی اقلیم یُقرئہم
بما یعرف فقط من الحروف التی نزل علیہا القرآن(۱۲)۔
بہرحال قرآن پاک کو مختلف کیفیات
سے پڑھنے کی جس طرح صریح اجازت شریعت کی طرف سے دی گئی
تھی اس طرح قرآن لکھنے کے لیے رسم الخط کی نہ تو عام اجازت تھی
اور نہ کسی رسم الخط پر صراحتاً کوئی پابندی تھی۔
اس لیے اپنی اپنی پسندیدہ قرأت کے مطابق قرآن کی
نقل کا سلسلہ بھی جاری تھا جس کے نتیجہ میں قرآن مجید
کے مختلف نسخے وجود میں آگئے تھے یہاں تک کہ اختلافِ رسم (مع اختلاف
قرأت) کی وجہ سے رفتہ رفتہ امت میں سنگین صورتِ حال پیدا
ہوچلی تھی۔ صاحب السیر (رازدارِ رسول صلى الله عليه وسلم)
حضرت حذیفہ رضى الله تعالى عنه کی حساس طبیعت نے کتاب اللہ کے
متعلق امت میں ہونے والے فتنہ کو بھانپ لیا اور دربار خلافت میں
یہ کہہ کر استغاثہ فرمایا ادرک
ہذہ الامة قبلَ ان یختلفوا اختلاف الیہود والنصاری(۱۳) یعنی قبل اس کے کہ امت یہود
ونصاریٰ کی طرح گمراہی کے بھنور میں پھنسے امت کی
کشتی کو سنبھالیے اور اس کو بچائیے۔ خلیفہٴ
رسول حضرت عثمان غنی رضى الله تعالى عنه نے امت کو اختلاف کے گرداب سے بچانے
اور ساحل عافیت پر لانے کے لیے اصحاب بصیرت صحابہ کرام رضی
اللہ عنہم اجمعین سے مشورہ کیا چنانچہ قرآن پاک کی ازسرِ نو
کتابت کے لیے چار آدمیوں عبداللہ بن زبیر، سعید بن العاص،
عبدالرحمن بن الحارث، اور زید بن ثابت پر مشتمل ایک جماعت مقرر فرمائی
اور کاتبِ وحی حضرت زید بن ثابت رضى الله تعالى عنه کو ذمہ دار ٹھہرایا
اور مصحف ابی بکر کو جو قرآن کا اولین مجموعہ اور مستند ترین
نسخہ تھا سامنے رکھ کر اس کی نقل تیار کرنے کا حکم دیا اور یہ
خاص ہدایت دی اذا
احتلفتم انتم وزید بن ثابت فی شيء من القرآن فاکتبوہ بلسان قریش
فانما نزل بلسانہم(۱۴) کہ جس
کلمہ کی کتابت میں قریش وغیر قریش کا اختلاف ہو تو
اسے قریش ہی کی لغت پر لکھا جائے اس لیے کہ قرآن پاک انہی
کی زبان میں نازل ہوا ہے۔
چنانچہ چار بلکہ سات نقلیں اس طرح تیار
کی گئیں کہ قرأتِ مختلفہ جس کا مصحف ابی بکر حامل تھا وہ بھی
بسلامت اور رسم الخط کی وحدت بھی قائم رہی۔ نیز ایک
نسخہ حضرت عثمان رضى الله تعالى عنه نے اپنے لیے مختص فرمایا جس کو
الامام کہا جاتا تھا۔ اس کے بعد آپ نے جن کے پاس قرآن پاک کا اپنا نسخہ تھا
سب کو طلب فرمایا اور دارالخلافت کا تیار کردہ ایک ایک
نسخہ سات بڑے شہروں مکہ، مدینہ، کوفہ، بصرہ، شام، یمن اور بحرین
روانہ کیا۔ اور چونکہ صحابہ کے پاس دوسرے نسخے بھی موجود تھے اِن الصحابة کانت لہم صحف او مصاحف کتبوا فیہا
القرآن من قبل(۱۵) اس لیے یہ شاہی
فرمان جاری کیا کہ اِس متفق علیہ (سرکاری) نسخہ ہی
کو اختیار کیا جائے اور سابقہ تمام نسخے جو سرکاری نسخے کے خلاف
ہوں نذر آتش کردیے جائیں(۱۶) قد استنخ عثمان بمدة نسخ من ذلک المصحف وارسلہا
الی الآفاق لیستفید المسلمون منہا ولایمیلون الی
ترتیب آخر(۱۷) صحابہ
و تابعین نے خلیفہٴ وقت کے فرمان کو سمعاً
وطاعةً
قبول کیا اور اُن مصاحف کو جو مصحف عثمانی کے خلاف تھے باادب طریقہ
سے ختم کردیا اور بغیر کسی اختلاف ونکیر کے مصاحف عثمانیہ
پر مجتمع ومتحد ہوگئے، پس اختلافِ ضلالت کو جس کا خطرہ لاحق ہوا تھا بیخ وبن
سے ختم کردیاگیا۔ یہ کارنامہ چونکہ حضرت عثمان رضى الله
تعالى عنه نے انجام دیا اس لیے قرآن کا یہ رسم الخط آپ کی
طرف منسوب ہوکر رسم عثمانی کہلایا۔
حضرات صحابہ و تابعین کے اس غیرمعمولی
اجماع نے مصحف کی قرانیت کے لیے رسم عثمانی کو فرض وشرط
بنادیا۔ علامہ جزری اپنی کتاب ”النشر“ میں لکھتے ہیں
کل قرأة وافقت العربیة لو بوجہٍ ووافقت
احدَ المصاحف العثمانیة ولو احتمالا وصح سندہا فہی القرأة الصححة التی
لایجوز ردہا ولا یحل انکارہا(۱۸) یعنی ہر وہ قرأت جس میں
یہ تین شرطیں پائی جائیں: (۱) قواعد
نحویہ کی مطابقت، (۲) رسم
الخط کی موافقت، (۳) اسناد
صحیحہ متصلہ کی متابعت۔ تو وہ قرأت صحیحہ ہے اس کا انکار
کرنا جائز نہیں ہے۔ اور جس مصحف میں یہ تینوں ارکان
موجود ہونگے وہی حقیقت میں قرآن کہلائے گا۔ صاحب خلاصة
الرسوم لکھتے ہیں کہ ابوبکر احمد بن مہران اپنی کتاب الہجاء میں
فرماتے ہیں: الحق والعدل والواجب والموجّہ فی وفی
خط المصحف ان یتبع کتَبةَ زید بن ثابت رضى الله تعالى عنه ورسم خطہ
وتصویرہ وتمثیلہ ولایحل للکاتب مخالفتہ ولو کان حاذقاً فیہما(۱۹)۔
راقم الحروف نے ہندوستان کے متعدد کتب
خانوں میں قرآن کے چوتھی صدی ہجری سے ۱۲/ویں صدی ہجری تک
کے مخطوطہ بہت سے نسخے اجمالاً و تفصیلاً ملاحظہ کیے ہیں تو جو
مصاحف رسم عثمانی کے موافق نہیں ہیں وہ الماریوں کی
زینت ضرور ہیں لیکن منصہ شہود پر یعنی امت محمدیہ
کے سامنے قرآن مجید کا وہی نسخہ منقول و متواتر چلا آرہا ہے جو رسم
عثمانی کے مطابق ہے۔ فللّٰہ درالخلیفہ۔
تنبیہ: اور جب رسم عثمانی کی
اہمیت و فرضیت اور قبولیت کا یہ عالَم ہے تو مادیات
کی ترقی کے موجودہ زمانہ میں کمپیوٹر اور موبائل میں
اتارے ہوئے قرآن کا باریک بینی سے مکمل جائزہ لینا ضروری
ہے تاکہ رسم عثمانی کی موافقت و مخالفت کا حال منکشف ہوجائے۔
راقم الحروف اس سلسلہ میں ایک تحقیقی اور تفصیلی
تحریر ان شاء اللہ قارئین کی خدمت میں پیش کرے گا۔
کل شيء مرہون بوقتہ․ وکل آتٍ قریبٌ․
دوسرے رسم الخط میں قرآن لکھنے کی
ممانعت
امام اشہب رحمہ
الله علیہ فرماتے ہیں کہ امام مالک رحمہ الله علیہ سے پوچھا گیا
کہ کوئی شخص قرآن لکھوانا چاہتا ہے تو کیامصحف اُس خط میں لکھ
سکتے ہیں جو لوگوں کے ایجاد کردہ ہیں امام مالک رحمة الله عليه
نے فرمایا نہیں قرآن تو بس پہلے رسم الخط (رسم عثمانی) میں
ہی لکھاجائے گا ہل یکتب
المصحف علی ما احدثہ الناس من الہجاء فقال لا الا علی الکتبیة
الاولی(۲۰) امام احمدبن حنبل رحمة الله عليه
فرماتے ہیں کہ مصحف عثمان رضى الله تعالى عنه کے خط (رسم الخط) کی
مخالفت حرام ہے(۲۱) علامہ ابوعمرو الدانی فرماتے
ہیں کہ علمائے امت میں سے کوئی بھی اس کا مخالف نہیں
ہے(۲۲) صاحب کشاف لکھتے ہیں وکان
اتباع خط المصحف سنة لا تخالف(۲۳) مصحف
عثمانی کے خط کا اتباع سنت (یعنی ایسا دستور) ہے جس کی
مخالفت نہیں کی جاتی ہے۔ جلال الدین سیوطی
رحمة الله عليه امام بیہقی سے نقل کرتے ہیں من یکتب مصحفا فینبغی ان یحافظ
علی الہجاء الذی کتبوا بہ تلک المصاحف ولایخالفہم فیہ ولا
یغیر مما کتبوہ شیئاً فانہم کانوا اکثر علما واصدق قلبا ولسانا
واعظم امانة فلا ینبغی ان نظن فانفسنا استدراکا علیہم(۲۴) یعنی جو شخص مصحف شریف
لکھنا چاہتا ہے تو چاہیے کہ اس رسم الخط کی پابندی کرے جس سے
صحابہ کرام نے مصاحف عثمانیہ لکھے ہیں ان کی مخالفت نہ کرے اور
نہ ان کی لکھی ہوئی کسی چیز میں کوئی
ادنیٰ تغیر کرے اس لیے کہ وہ حضرات پوری امت میں
سب سے علم والے اور قلب وزبان کے اعتبار سے سب سے سچے اور سب سے زیادہ امانت
دار تھے پس خوش فہمی میں مبتلاہوکر ان پر استدراک کرنا ہمارے لیے
جائز نہیں ہے۔
علامہ جعبری متوفی ۷۳۳ھ لکھتے ہیں
رسم المصحف توقیفی ہو مذہب الاربعة یعنی
قرآن کریم کا یہ رسم الخط توقیفی اور سماعی ہے یہی
ائمہ اربعہ کا مذہب ہے۔(۲۵)
مولانا ظفراحمد تھانوی لکھتے ہیں:
جب عربی ہی زبان میں مگر دوسرے رسم الخط میں قرآن کا
لکھنا جائز نہیں ہے جبکہ اس میں وہ سارے حروف موجود ہیں جو خط
عثمانی میں موجود ہیں تو پھر اس کے علاوہ دوسری زبان میں
جس میں تمام حروف کو مکمل رعایت ہوہی نہیں سکتی ہے
لکھنا کب جائز ہوگا۔(۲۶)
فقیہ الامت مفتیٴ اعظم
ہند و دارالعلوم دیوبند حضرت مفتی محمود حسن گنگوہی رحمة الله
عليه لکھتے ہیں ․․․․
عبارات منقولہ سے معلوم ہوا کہ مصحف عثمانی کے رسم خط کی رعایت
ومتابعت لازم و ضروری ہے اور اس کے خلاف لکھنا اگرچہ وہ عربی رسم خط میں
ہی کیوں نہ ہو ناجائز اور حرام ہے اور اس مسئلہ پر ائمہ اربعہ کا
اتفاق ہے بلکہ علمائے امت میں سے کسی کا اختلاف نہیں تو یہ
اجماعی مسئلہ ہوا پھر غیر عربی بنگلہ (ہندی، گجراتی)
وغیرہ رسم خط میں لکھنا کیسے جائز ہوسکتا ہے اس میں تو
جواز کا کوئی احتمال ہی نہیں بعض حروف عربی کے ساتھ مخصوص
ہیں جیسے طاء، حاء، ضاد، ظاء وغیرہ یہ حروف دوسری
زبان میں استعمال ہی نہیں ہوتے ان کے لیے ان زبانوں میں
نہ صوت ہے نہ شکل وصورت ہے تو لامحالہ ان کی جگہ دوسرے حروف لکھے جائیں
گے اور یہ عملاً تحریف و تغییر ہے جو کہ حرام ہے۔
البتہ اگر متن قرآن کریم تو عربی اصل رسم خط میں ہو اور اس کا
ترجمہ و تفسیر دوسری زبان میں تو شرعاً مضائقہ نہیں(۲۷)۔
تنبیہ: بہت سے علاقوں میں
وہاں کے ہمدردانِ قوم مقامی عام لوگوں کی دینی راہنمائی
کے لیے قرآن پاک کی چھوٹی سورتوں اور ماثور دعاؤں کو عربی
خط میں لکھنے کے بجائے علاقائی زبان (ہندی، گجراتی، بنگالی
وغیرہ) میں لکھ کر اور چھاپ کر شائع کرتے ہیں۔ مذکورہ تحریر
سے معلوم ہوگیا کہ یہ بھی صحیح نہیں ہے۔
قراء تِ سبعہ یا عشرہ کا تواتر
پیغمبر صلى الله عليه وسلم سے قرآن
پاک کی تعلیم حاصل کرنے والے ہزاروں میں سے پچاسوں صحابہ تعلیم
قرآن میں معروف تھے پھر ان میں سب سے زیادہ مشہور حضرت عثمان
رضى الله تعالى عنه، علی رضى الله تعالى عنه، ابی بن کعب رضى الله
تعالى عنه، زید بن ثابت رضى الله تعالى عنه، عبداللہ بن مسعود رضى الله
تعالى عنه، ابوالدرداء رضى الله تعالى عنه، ابوموسیٰ اشعری رضى
الله تعالى عنه تھے(۲۸) پھر
تابعین کی ایک بڑی جماعت نے اُن سے اور دوسرے صحابہ سے
قرآن کو اُن وجوہ سے حاصل کیا جن سے انھوں نے خود نبی امی صلى
الله عليه وسلم سے سیکھا تھا۔ پھر اُن میں متعدد شخصیتوں
نے قرآن کریم پڑھنے اور پڑھانے کو اپنی زندگی کا نصب العین
بنالیا اور یہی اُن کے شب وروز کا حقیقی موضوع اور
بہترین مشغلہ تھا ثم تجرد
قوم واعتنوا بضبط القرأة اتم عنایة حتی صاروا ائمة یقتدی
بہم ویرحل الیہم(۲۹)
ثم تجرد قوم للقرأة والاخذ واعتنوا بضبطا اتم عنایة
حتی صاروا فیہا ائمة یقتدی بہم واجمع اہل بلدہم علی
تلقی قرأتہم بالقبول(۳۰)
یعنی
بعض حضرات نے قرأتِ قرآن کی تعلیم و تبلیغ کے لیے اپنی
زندگی کو وقف کردیا تھا اُن کی اِس قربانی کے نتیجہ
میں اللہ تعالیٰ نے علم قرأت میں انہیں امامت و پیشوائی
کا رتبہ عطا فرمایا قال السیوطی:
واشتہر من ہوٴلاء فی الآفاق الائمةُ ان میں سے
پھر یہ لوگ یعنی امام نافع مدنی، امام ابن کثیر مکی،
امام ابن عامر شامی، امام ابوعمرو بصری، امام عاصم کوفی، امام
حمزہ کوفی، امام کسائی کوفی، کو عالم میں زیادہ
شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی۔(۳۱)
یہ ائمہ اگرچہ تمام متواتر قرأتوں کے
حافظ وعالم تھے مگر ہر ایک کو ایک مخصوص قرأت میں جو ان کی
پسندیدہ اور محبوب تھی امتیازی شان نصیب ہوئی
یہاں تک کہ ہر قرأت ان اماموں میں سے ایک ایک کے نام کی
طرف منسوب ہوگئی اور قرأت کا تواتر ان ائمہ کے ناموں سے وابستہ ہوگیا
اور ان کی قرأت متواتر قرأت کی معرفت کا مدار بن گئی کہ دنیا
کے کسی بھی گوشہ میں قرآن کی قرأت ہو وہ قرأت معتبر و
مستند جب ہوگی جب کہ اس کی سند مذکورہ اماموں میں سے کسی
ایک تک سند متصل سے پہنچتی ہے تو وہ متواتر کہلائے گی کیونکہ
اِن ائمہ سے پیغمبر صلى الله عليه وسلم تک قرآن کا تواتر یقینی
ہے لہٰذا ہر امام کی قرأت کے قرآن ہونے کا یقین واجب اور
ضروری ہے اور جو قرأت مذکورہ ائمہ سبعہ بلکہ عشرہ کے علاوہ کسی اور
شخصیت کی طرف منسوب ہے وہ متواتر نہیں کہلائے گی۔
تنبیہ: قراء سبعہ وعشرہ
کی قرأت کے متواتر ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ قرأت کا
تواتر اِن ائمہ قرأت سے شروع ہوا ہے اس سے قبل نہیں تھا۔ حاشا وکلاّ۔
اگر کسی کو یہ تردد ہوا ہوتو مذکورہ تحریر سے اس کا ازالہ
ہوجاتا ہے۔ فافہم
* * *
حواشی:
(۱) اتقان،
ص:۲۱۲ نوع ۷۶۔ (۲) سورئہ یوسف
پ۱۲۔
(۳) اتقان،ج:۲، ص:۲۱۲۔ (۴) الکامل
للمبرد۔
(۵) مفتاح
السعادة،ج۱، ص:۹۴۔ (۶) مناہل
العرفان۔
(۷) مسلم
شریف۔ (۸) مناہل
،ج:۱، ص:۲۵۳۔
(۹) نثر
المرجان فی رسم نظم القرآن، ج:۱، ص:۱۰۔(۱۰) اتقان۔
(۱۱) المقنع
للدانی ص۴۔ (۱۲) مناہل،ج:۱،ص:۲۵۶
(۱۳) المقنع،ص۴۔ (۱۴) مناہل
،ج۱،ص۲۵۹۔
(۱۵) مناہل
العرفان۔ (۱۶) ایضاً۔
(۱۷) الفوز
الکبیر،ص۸۷۔ (۱۸) اتقان
عن النشر۔
(۱۹) نثرالمرجان،ج۱،ص:۱۱۔ (۲۰) المقنع،ص۹۔
(۲۱) اتقان
ص۲۱۳۔ (۲۲) المقنع
،ص۹۔
(۲۳) مفتاح
السعادة،ج۱،ص:۹۴۔ (۲۴) اتقان
عن البیہقی فی شعب الایمان۔
(۲۵) شرح
العقیلہ۔ (۲۶) امداد
الفتاویٰ،ج۴، ص۴۴۔
(۲۷) فتاویٰ
محمودیہ،ج۱، ص۴۶۔ (۲۸) الاتقان،ج۱، ص۹۶۔
(۲۹) ایضاً،ج۱، ص۹۷۔ (۳۰) نثر
المرجان، ج۱، ص۱۰۔
(۳۱) نثرالمرجان،
منجد المقرئین، ص۲۳۔
*
* *
ماہنامہ دارالعلوم
، شماره 06-05 ، جلد: 93 جمادى الاول – جمادى الثانى 1430 ھ مطابق مئى – جون 2009ء